Pages

Tuesday, August 15, 2006

Allao Urdu Novel by M.Mubin Part1

الاو
از:۔ ایم مبین
پہلا باب
٭صبح جادو بکھیرتی ہوئی نمودار ہوتی ہے۔ہر فرد کےلیےاس میں ایک الگ طرح کا جادو ہوتا ہےاور وہ اس میں اپنےمقصد کا جادو تلاش کرتا ہے محنت کشوں ،مزدوروں ،نوکر پیشہ ،طلبہ، تاجر ہر طبقہ کےلیےصبح میں ایک اپنا منفرد جادو نہاں ہوتا ہی۔لیکن صبح کبھی بھی جمی کےلیےجادو سی محسوس نہیں ہوتی تھی۔وہ تو رات کا راجہ تھا ۔اس کا دل چاہتا تھا اکثر اس کی زادگی میں صرف زندگی بھر کی رات ہی رہےتو بھی یہ اس کےلیےخوشی کی بات ہے۔وہ اسی میں خوش رہےگا اور جشن منائی گا۔ وہ اس رات کی صبح کا کبھی انتظار نہیں کرےگا۔اسےکبھی صبح کا انتظار نہیں ہوتا تھا۔ صبح کی آمد اس پر ایک بیزاری سےکیفیت طاری کرتی تھی۔ اور اسےمحسوس ہوتا تھا صبح نہیں آتی ہےایک عفریت آتا ہی۔ اس کی خواہشوں ،ارمانوں، احساسات، چستی ،پھرتی ،شگفتگی کا خون چوسنےکےلیے۔دن کےنکلنےپر اسےوہی ساری کام کرنا پڑیں گےجو اسےپسند نہیں ہی۔ اس کےآزادی سلب ہوجائےگی وہ غلام بن جائےگا اور ایک غلام کی طرح رات کےآنےتک وہ کام کرتا رہےگا جو اس کےذمہ ہی۔ دن اس کےلیےغلامی کا پیغام لےکر آتا ہےتو رات اس کی آزادی کا سندیش۔باربار وہ اس دن کو کوستا تھا جب اس نےاپنےچاچا کےکہنےپر پنجاب چھوڑنےاور اس چھوٹےسےگاو
¿ں میں چاچا کا کاروبار سنبھالنےکی حامی بھری تھی۔اس کےحامی سن کر تو اس کےچاچا کرتار سنگھ کےچہرےپر خوشی کی لہر دوڑگئی تھی۔ اس نےاپنےچاچا کےچہرےپر جو اطمینان کی لہر دیکھی تھی وہ لہر اس نےاپنےباپ اقبال سنگھ کےچہرےپر اس دن دیکھی تھی جس دن اس کی بڑی بہن کا بیاہ ہواتھا۔ ایک فرمان کی ادائیگی کےبعد دل کو قلبی سکون ملتا ہےاور چہرےپر جو اطمینان کےتاثرات ابھرتےوہی تاثرات کرتار سنگھ کےچہرےپر تھی۔”پُترا.... آج تونےمیری سب سےبڑی مشکل آسان کردی ....ورنا میں تو مایوس ہوکر اپنا سارا کاروبار گھر بار فروحت کرکےپنجاب کا رخ کرنےوالا تھا۔ لیکن اب جب تونےوہ کاروبار سنبھالنےکی حامی بھرلی ہےمیں ساری فکروں سےآزاد ہوگیا ہوں۔ بیس سال سےمیں نےجو کاروبار جما رکھا ہےوہ آگےچلتا رہےگا اور کس کےکام آئےگا۔ کسی کےکیوں میرےاپنےخون کےہی کام آئےگا ۔اس کاروبار کی بدولت میں ےیہاں پنجاب میں اتنی زمین جائداد بنالی ہےکہ مجھےاب زندگی بھر کوئی اور کام کرنا نہیں پڑےگا ۔لیکن آج میں اپنا وہ کاروبار تمہارےحوالےکرتےہوئےیہ کہنا چاہتا ہوں جس طرح محنت سےمیں نے٠٢ سال تک کاروبار اتنا دھن کمایا ہےاور اس قابل ہوگیا کہ مجھےاب کسی کےسہارےکی ضرورت نہیں ہےتو بھی محنت سےاپنےکاروبار کو پھیلا اور اس سےاتنا پیسہ کماکر تو بھی ایک دن آئےگا وہ سار اکاروبار کسی اور کےحوالےکرکےاپنےوطن اپنےگاو
¿ں آنےکےقابل ہوجائے۔“اس کےاس فیصلےسےسب سےزیادہ خوشی اقبال سنگھ کو ہوئی تھی۔ وہ جاکر کرتار سنگھ سےلپٹ گیا تھا۔ کرتارے....آج تونےاپنےبڑےبھائی ہونےکا حق ادا کردیا ۔میری سب سےبڑی فکر دور کردی ۔جسمندر کو دھندےسےلگادیا کام سےلگادیا۔ میں رات دن اس کی فکر میں رہتا تھا یہ لڑکا کام دھندا کرےگا بھی یا پھر زندگی بھر آوارگیاں کرتارہےگا۔ کئی سالوں سےاسےسمجھارہاتھا تو پڑھتا لکھتا تو نہیں ہی۔ پڑھنےلکھنےکےنام پر کیوں اپنا وقت اور میرےپیسےبرباد کررہا ہی۔ یہ پڑھنا لکھنا چھوڑ کر کوئی کام دھندہ کر۔ مگر یہ مانتا ہی نہیں تھا۔ اسےپڑھنےلکھنےکےنام پر آوارگیاں کرنی جو ملتی تھی ۔مگر تونےاسےکام دھندا کرنےپر راضی کرکےمیری سب سےبڑی فکر دور کردی ۔گھر سےدور رہےگا تو آوارگیاں بھی دور ہوجائی گی اور دھندےمیں بھی دل لگےگا۔باپ اور چاچا اس کی حامی پر جشن منارہےتھی۔ لیکن وہ خود ایک تذبذب میں تھا۔اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کس سحر کےتحت اس نےاپنا گھر ،گاو
¿ں ،وطن چھوڑکر اکیلےکام کرنےکےلیےہزاروں میل دور جانا قبول کرلیا تھا ۔اس کےدوستوں نےسنا تو اس کےاس فیصلےپر حیرت میں پڑگئی۔ اور وہ بھی پنجاب سےہزاروں میل دور گجرات ....اپنےچاچا کا کاروبار سنبھالنےکےلیے۔”ہاں....صحیح سنا ہے۔اس نےجواب دیا تھا۔ “”اوی.... تو وہاں ہمارےبنا رہ سکےگا ؟“”اب زندگی تم لوگوں کےساتھ آوارگیاں کرتےتو نہیں گذرسکتی ہی۔سوچتا ہوں واہ گرو نےایک موقع دیا کچھ کرنےکا اور کچھ کردیکھانےکا اسےکیوں گنوادوں۔ان آوارگیوں کےسہارےتو زندگی گذرنےسےرہی۔ روزروز پاپاجی کی باتیں سننی پڑتی ہیں ماں کی جھڑکیاں سہنی پڑتی ہیں۔ بڑی بہنیں جب بھی آتی ہیں لکچر بگھارتی ہیں۔ بھائی بات بات پر غصہ ہوکر گالیاں دینےلگتا ہی۔ بس اب یہ سب برداشت نہیں ہوتا۔ سوچتا ہو اس ماحول سےکچھ دنوں کےلیےدور چلا جاو
¿ں ۔اگر واہ گرو نےاس دھندےمیں رزق لکھا ہےاور گجرات کا دانہ ہانی میری تقدیر میں ہےتو مجھےجانا ہی پڑےگا ۔ اور جس دن وہاں کا دانہ ہانی اٹھ جائےگا میں اوپس گاو
¿ں آجاو
¿ں گا۔“اس کی اس بات سےسب خاموش ہوگئےتھی۔ ”اوےجسمندر .... ہم تیرےدوست ہیں دشمن نہیں ۔تیری ترقی سےہم خوش ہوں گے۔ ہماپنےمفاد کےلیےتیری زندگی برباد نہیں ہونےدیں گے۔آج تجھےکچھ کرنےکا موقع ملا ہےتو جا۔ کچھ کردکھا ۔ہماری دعائیں یرےساتھ ہی۔ دوستی تعلقات اپنی کچھ دنوں تک تیری یاد ستائی تیری کمی محسوس ہوگی پھرہم بھی زندگی کی الجھنوں میں گھِر کر تجھےبھول کر اپنےاپنےکام دھندوں میں لگ جائیں گی۔ “”جمی .... وہاں جاکر ہمیں بھول نہ جانا ۔“”ارےتو میں ہمیشہ کےلیےگاو
¿ں چھوڑ کر تھوڑی جارہاہوں ۔سال چھ مہینےمےبیساکھی پر آتارہوں گا۔“دوستوں اور گاو
¿ں کو چھوڑنا اسےبھی اچھا نہیں لگ رہا تھا ۔لیکن اس نےگاو
¿ں ،گھر چھوڑنےکا ارادہ کرلیا تھا۔ پھر وہ گاو
¿ں چھوڑنےوالا پہلا فرد نہیں تھا۔ ہر گھر خاندان کےکئی کئی افراد گاو
¿ں سےباہر تھی۔ کوئی ٹرک چلاتا تھا جس کی وجہ سےمہینوں گھر ،گاو
¿ں سےدور رہتا تھا ۔کوئی فوج میں تھا صرف چھٹیوں میں گھر آپاتاتھا ۔کچھ غیر ممالک میں جاکر بس گئےتھےجس کی وجہ سےوہ صرف پانچ دس سالوں میں ہی گاو
¿ں آپاتےتھی۔ نوکری کےسلسلےمیں جو لوگ ملک کےمختلف حصوں میں گئےتھےانھوں نےانہی حصوں کو اپنا وطن بنالیا تھا اور گاو
¿ں اور گاو
¿ں کو بھول گئےتھےصرف شادی بیاہ، موت مٹی کےموقع پر گاو
¿ں آتےتھی۔اس کےچاچا کی طرح جن لوگوں نےدوسرےشہروں اور ریاستوں میں دھندہ شروع کرلیا تھا وہ لوگ بھی گاو
¿ں کےمہمان کی طرح آتےتھے۔کل سےاس کا شمار بھی ان لوگوں میں ہوگا۔ویسےبھی گاو
¿ں میں اس کےلیےکوئی دلچسپی نہیں رہ گئی تھی۔ پڑھائی کےنام پر وہ پانچ سالوں سےایف وائےآرٹ کا طالب علم تھا ۔ اس کےپتا اور گھر والوں کو پورا یقین تھا رہ کبھی گریجویشن پورا نہیں کرپائےگا ۔اس کا کالج گاو
¿ں سےدس کلومیٹر دور تھا ۔روزانہ سویرےوہ کالج جاتا ۔کبھی دوپہر تک گاو
¿ں واپس آجاتا تو کبھی شام کو اوپس آتا۔ کبھی دل آیا تو جاتا ہی نہیں ۔دوستوں کےساتھ آوارہ گردی کرتا ۔ایک دوست جگیرےکی ہوٹل تھی۔ تمام دوست اس ہوٹل میں بیٹھا کرتےتھی۔ جگیرےکےچھوٹےموٹےکاموں میں ہاتھ بٹاتےتھے۔یا پھر پورا دن وہاں بیٹھ کر گپیں ہانکتےرہتےیا شرارتیں کرتےرہتےتھی۔ آئےدن ان کی شرارتوں کی شکایتیں ان کےگھر کو پہونچتی رہتی تھی۔ شرارتیں معصوم ہوتی تو لوگ نظر انداز بھی کردیتےلیکن اب وہ بچےنہیں رہےتھےبڑےہوگئےتھےجس کی وجہ سےان شرارتوں کا انداز بھی بدل گیا تھا ۔وہ گاو
¿ں کی لڑکیوں کو چھیڑتےرہتےتھے۔کبھی معاملہ نوک چھونک تک ہوتا تو کبھی چھیڑ چھاڑ تک ....کبھی معاملہ دل کا ہوتا.... تو کبھی عزت کا ۔تمام دوستوں کا کسی نہ کسی سےدل لگا تھا۔ لیکن صرف اس کا دل کسی پر نہیں آیا تھا ۔اس سےدل لگانےوالی کئی تھیں۔ لیکن س کی نظر میں ان کےاس جذبےکی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ دوستوں کےدلوں کا معاملہ دلوں سےبڑھ کر جسموں تک پہونچ گیا تھا ۔اور وہاں سےآگےبڑھ کر شادی کےبندھن تک ۔کچھ معاملےدرمیان میں ادھورےرہ گئےتھے۔لڑکیوں کی کہیں اور شادیاں ہوگئی تھی۔ اور پنجاب کی روایتی رومانی داستانوں میں کچھ اور داستانوں کا افسانہ ہوگیا تھا۔اب وہ ٹوٹےہوئےدل ان کی یاد میں آہیں بھرتےاورشراب سےاپنا غم غلط کرتےتھے۔ اس طرح غم غلط کرتےکرتےانھوں نےباقی دوستوں کو بھی شراب کا عادی بنادیا تھا۔ ان میں ایک وہ بھی تھا ۔وہ شراب کا عادی تو نہیں ہوا تھا۔لیکن راب پینےلگ گیا تھا۔ اور اکثر دوستوں کا ساتھ دینےکےلےان کےساتھ شراب پیتا تھا۔ ظاہر سی بات ہےاس کا شراب پینا گھر والوں کےلےتشویش کی بات تو ہوئی ۔اس لیےوہ سنجیدگی سےسوچنےلگےتھےکہ اس سےقبل کہ جسمندر سنگھ شراب کا عادی بن کر اپنی زندگی تباہ کرلی۔ اس لیےیہ لت چھڑانےکا کوئی طریقہ سوچنا چاہیی۔ آسان راستہ یہ تھا کہ اس کی پڑھائی چھڑاکر اسےکسی کام سےلگادیا جائے۔لیکن اسےکس کام پر لگایا جائے۔کسی کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ کالج پڑھتا لڑکا کھیتوں میں سو کام نہیں کرسکتا ۔ ورنہ کھیتوںمیں تو ہمیشہ آدمیوں کی کمی رہتی تھی۔ اچانک اس کی چاچی کا انتقال ہوگیا ۔اور اس کےچاچا کرتار سنگھ گاو
¿ں آگیا۔ کرتار سنگھ بیس سال قبل کاروبار کےسلسلےمیں گاو
¿ں سےگیا تھا۔ اس نےگجرات کےایک چھوٹےسےگاو
¿ں نوٹیا میں موٹر سائیکل ،کار ٹریکٹر کےپرزوں کی دوکان ڈالی تھی۔ اس گاو
¿ں اور آس پاس کےدیہاتوں میں اس نوعیت کی کوئی دوکان نہیں تھی ۔ اس لیےاس کی دوکان و کاروبار چل نکلا اور اس نےبیس سالوں میں بہت پیسہ کمایا۔وہ سال میں ایک آدھ ماہ کےلیےگاو
¿ں آتا تھا تو دوکان نوکروں کےبھروسےچھوڑ آتا تھا۔اس کا کاروبار پھلتا پھولتا گیا۔ آس پاس اور کئی دکانیں کھل گئی۔ لیکن کرتار سنگھ کےکاوبار پرکوئی اثر نہیں پڑا کیونکہ اس نےہول سیل میں ان دکانوں کو کل پرزےسپلائی کرنا شروع کردئیےتھی۔ جس کی وجہ سےاس کےزمین اور جائیداد میں اضافہ ہوتا گیا اس کےبچےاچھےاسکولوں میں پڑھتےکالج میں پہنچ گئی۔ بٹیاں شادی کےلائق ہوگئیں اور انھیں اچھےگھروں سےرشتےآنےلگی۔ اچانک طویل بیماری کےبعد کرتار سنگھ کی گھروالی اور اس کی چاچی کا انتقال ہوگیا جس کی وجہ سےکرتار سنگھ ٹوٹ گیا۔ ابھی تک گاو
¿ں میں گھر کو اس کی چاچی نےسنبھال رکھا تھا۔ لیکن چاچی کےانتقال کےبعد گھر سنبھالنےوالا کوئی نہیں رہا تو کرتار سنگھ کو فکر دامن گیر ہونےلگی۔ گھر میں جوان لڑکیاں اور لڑکےتھے۔ان پر نظر رکھنےوالا گھر میں کوئی بڑا آدمی بےحد ضروری تھا۔ یوں تو اس کا باپ اقبال سنگھ اپنےبچوں کےطرح بھائی کےبچوں کا خیال رکھتا تھا۔ اس کےہوتےہوئےکرتار سنگھ کو اس سلسلےمیں کسی طرح فکر کرنےکی کوئی ضرورت نہیں تھی۔لیکن کرتار سنگھ باپ تھا اس کا دل نہیں مانا۔اس نےطےکرلیا تھا کہ اب وہ واپس گجرات نہیں جائےگا ۔اپنا سارا کاروبار کسی کو دےدےگا یا فروخت کردےگا اور گاو
¿ں میں رہ کر اپنےبچوں کی دیکھ بھال کرےگا۔ لڑکیوں کی شادیاں کرےگا اور لڑکوں کو نوکری یا کام دھندوں سےلگائےگا۔ کاروبار فروخت کرنےسےپہلےاس کےذہن میں اس کا خیال آیا ۔اس کےلڑکےابھی کاروبار سنبھالنےکےلائق نہیں ہے۔ اگر وہ کاروبار فروخت کردیتا ہےاس کاروبار سےاس کا رشتہ ہی ٹوٹ جائےگا۔ اگر اپنی دوکان کسی کو دےدیتا ہےتو پانچ دس سال بعد اس کےلڑکےکاروبار سنبھالنےکےقابل ہوجائیں گےتو وہ اپنا کاروبار دوکان اس سےواپس لےکر اپنےلڑکوں کےحوالےکرسکتا ہی۔ اس خیال کےآتےہی اس کی نظر اس پر پڑی۔اور اس نےاس کےسامنےاپنی ساری صورتِ حال رکھ دی ۔جمی بیٹی.... ”میں چاہتا ہوں تم میری وہ دوکان سنبھالو۔ مجھےتم اس کا ایک پیسہ بھی مت دو۔ لیکن پاچن دس سال بعد جب میرےبچےاس قابل ہوجائیںکہ وہ دوکان سنبھال سکیں تو تم مجھےوہ دوکان واپس دےدو۔“اس نےبنا سوچےسمجھےحامی بھر لی ۔اسےلگا اس کےہاتھ ایک مو قع لگا ہےاسےگنوانا نہیں چاہیی۔ایک مہینےبعد اس کےچاچا کرتار سنگھ اسےلےکر نوٹیا آیا۔اس نےدوکان کےنوکروں اور گاو
¿ں والوں سےاس کا تعارف کرایا۔ ”یہ میرا بھتیجہ جسمندر سنگھ ہی۔سب اسےجمی کہتےہیں۔ آج کےبعد یہی میری دوکان اور کاروبار دیکھےگا۔ “ایک آٹھ دس سال کا لڑکا راجو اور ایک ٠٤،٥٤ سال کا آدمی رگھو۔رگھو پرانا نوکر تھا ۔لیکن اب اس کا دل اس کام میں نہیں لگتا تھا۔ وہ یہ نوکری چھوڑ کر اپنا خود کا کوئی ذاتی کاروبار شروع کرنےکا سوچ رہا تھا ۔٠١ سال کا راجو نیا نیا تھا۔ وہ صرف سامان دےسکتا تھا اور گاہک سےاس سامان کی بتائی قیمت وصول کرسکتا تھا۔ دوسرےلفظوں میں دوکان کی ساری ذمہ داری اس پر تھی ۔کرتار سنگھ نےاسےمشورہ دیا تھا فلی ل وہ صرف دوکان پر توجہ دےہول سیل پر دھیان نہ دی۔ دھیرےدھیرےجب وہ دوکان اچھی طرح سنبھالنےلگےتو اس کےبعد ہول سیل پر توجہ دینا۔اس کا چاچا نوٹیا میں آٹھ دنوں تک اس کےساتھ رہا۔ اور دوکان داری کےسارےگُر بتا گیا۔مال کہاں سےخریداجائےکسی قیمت پر فروخت کیا جائےکون مستقل گراہک ہی۔ اس کی دوکان کا نام ”گرونانک آٹو پارٹ“تھا۔ دوکان کےاطراف ایک دو مکینک نےاپنی دوکانیں کھول رکھی تھی۔ ایک بڑےسےبکس میں وہ روزانہ اپنا سامان لےکر آتےاور اس سےاپنا کام کرتےتھی۔ وہ لوگ اس کےلیےاس لیےمفید تھےکیونکہ وہ سامان اس کی دوکان سےہی خریدتےتھی۔ اکثر کسی کو اپنی سواری کا کوئی پارٹ ہوتا تھا تو وہ اس کی دوکان سےپارٹ خرید کر ان کےپاس پہنچ جاتا وہ لوگ اس پارٹ کو تبدیل کردیتےتھی۔ اس کی دوکان میں ڈیوٹی سویرےآٹھ بجےسےرات کےآٹھ بجےتک تھی۔ دوپہر میں وہ ایک آدھ گھنٹےکےلیےکھانا کھانےکےلیےکسی ہوٹل دھابےپر جاتا یا اپنےکمرےمیں جاکر خود ہی اپنےہاتھوں سےکھانا بناتا۔ اس وقت بھی دوکان بند نہیں ہوتی تھی ۔نوکر دوکان دیکھتےتھی۔ نوکر بھی کھانا کھانےکےلیےایک دیڑھ گھنٹےکےلیےاپنےگھر جاتےتھےاس وقت وہ دوکان دیکھتا تھا۔ دوکان دومنزلہ تھی۔ نیچےدوکان اوپر رہائش کےلیےدو کمرےجہاں اس کا چاچا رہتا تھا۔ دوکان کےپیچھےبھی ایک کمرہ تھا جسےگودام کےطور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ اس میں زائد مال رکھا جاتا تھا۔ یا پھر بیکار مال۔دن بھر تو دوکانداری میں گذر جاتی تھی ۔مگر اس کےرات کاٹنی مشکل ہوجاتی تھی۔ شروع شروع میں اس کےلیےرات کاٹنا بہت مشکل محسوس ہوتا تھا۔ کیونکہ اس کا نہ توکوئی دوست تھا نہ ہی کوئی شناسا جس کےساتھ وہ باتیں کریں۔ دوکان بند کرکےوہ کھاناکھاتا اور پھر اپنےکمرےمیں قید ہوکر بستر پر لیٹ کر سونےکی کوشش کرتا ۔نیند بھلا اتنی جلدی اور اتنی آسانی سےکہاں آتی ۔گاو
¿ں میں اسےدودو تین تین بجےتک جاگنےکی عادت تھی۔ اس لیےایک دوبجےسےقبل اسےنیند نہیں آتی تھی۔ اس بےخوابی سےکبھی وہ اتنا پریشان ہوجاتا کہ اس کا دل چاہتا وہ یہ کام دھندہ دوکانداری چھوڑ کر واپس گاو
¿ں بھاگ جائی۔ گاو
¿ں میں وہ دیر سےسوتا تھا تو دیر سےجاگتا تھا۔ جب کالج جانا نہیں ہوتا تھا یا چھٹیوں میں وہ ٢١ بجےسےپہلےبستر نہیں چھوڑتا تھا۔ لیکن یہاں پر وہ رات میں دوبجےسو یا سو تین بجےرات میں دوکان کھولنےکےلیےسویرےسات بجےجاگنا پڑتا تھا۔ اس لیےاسےصبح کی آمد پسند نہیں تھی۔ صبح آتی تو اس کی آنکھوں میں نیند بھری ہوتی تھی۔ جسم بوجھل سا ہوتا تھا۔ جسم کا ایک ایک حصہ رات کی بےخوابی کی وجہ سےٹوٹتا محسوس ہوتا تھا۔ دل تو چا رہا ہوتا تھا کہ وہ اور چار پانچ گھنٹےسوئےلیکن دوکان کھولنےکےلیےجاگنا ضروری تھا۔ ذراسی تاخیر ہوجاتی تو رگھو اور راجو آکر گھر دستک دیتی۔ اس لیےبادل ناخواستہ اسےجاگنا پڑتا۔ رات میں یار دوستوں کی صحبتوں ،محفلوں کی باتیں یاد آتی ۔جب گاو
¿ں اور دوستوں کی یادیں زیادہ ہی مغموم کردیتیں تو وہ شراب پی لیتا تھا۔ شراب پینےسےاسےسکون مل جاتا تھا اور نیند بھی آجاتی تھی۔لیکن اکیلےاسےشراب پینےمیں مزہ نہیں آتا تھا۔ یار دوستوں کےساتھ مل بیٹھ کر ہنسی مذاق کرتےہوئےشراب پینےکا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہی۔ کئی بار اس نےکوشش کی کہ رگھو اس کا ساتھ دےلیکن رگھو اس کا ساتھ نہیں دیتا تھا۔ ”جمی سیٹھ ....تم تنخواہ اتنی کم دیتےہو کہ اس میں میرےگھر والوں کا پیٹ مشکل سےبھر پاتا ہی۔ شراب کی لت لگا کر کیا میں انھیں بھوکا ماروں؟ مانا آج تم مجھےمفت کی پلا رہےہو .... لیکن عادت لگ جانےکےبعد تو مجھےاپنےپیسوں کی پینی پڑےگی تب کیا ہوگا؟تمہارےچاچا بھی مجھ سےیہی اصرار کرتےتھی۔ تب بھی میں نےاس لت کو گلےنہیں لگایا تو آج کیوں لگاو
¿ں؟“ راجو چھوٹا لڑکا تھا ۔اسےشراب کی پیش کش نہیں کرسکتا تھا۔ ایک مکینک سےاس کی پہچان ہو گئی تھی۔ وہ شراب کا عادی تھا اس کےلیےشراب بھی لاکر دیتا تھا۔ اور اس کےساتھ شراب تھی پیتا تھا۔ لیکن اس کےساتھ اپنےتعلقات صرف شراب لاکر دینےاور کبھی کبھی ساتھ شراب پینےکی حد تک ہی محدود رکھاتھا۔ اس معیار کا آدمی نہیں تھا کہ اس کےحلقہ احباب میں شامل کیا جائی۔اس کےحلقہ احباب میں کئی لوگ شامل ہوگئےتھی۔ اس کا چاچا جاتےہوئےاسےکچھ ایسی باتیں بھی بتا گیا تھا جن سےوہ محتاط رہنےلگا تھا۔ اس کےچاچا نےکہا تھا ”....جمی ....ان گجراتی لوگوں سےہوشیار رہنا ۔میں بیس سال سےاس گاو
¿ں میں ہوں ۔ان کےدرمیان دھندہ کررہا ہوں لیکن مجھےپتہ ہےوہ لوگ مجھےپسند نہیں کرتےہیں ۔مجبوری کی طور پر مجھےجھیل رہےہیں یا انھیں محسوس ہوتا ہےکہ وہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ان کےلیےپیسہ اور دھندہ ہی سب کچھ ہے۔پیسہ اور دھندےکےلیےیہ کچھ بھی کرسکتےہیں ۔کسی بھی حد تک گِر سکتےہیں ۔پہلےجب اس گاو
¿ں میں میری واحد دوکان اسپیر پارٹ کی دوکان تھی اس لیےیہ مجھےبرداشت کرلیتےتھی۔ لیکن اب جبکہ کئی اسپیر پارٹ کی دوکانیں ہیں اور وہ گجراتیوں کی ہیں ۔وہ مجھ سےجلتےہیں۔ اس میں وہ تمام دوکان دار چاہتےہیں میں یہ دوکان بند کرکےچلا جاو
¿ں ۔آتےدن ذات اور برادری کےنام پر میرےگاہک توڑنےکی کوشش کرتےہیں۔اس میں وہ کچھ کچھ حد تک کامیاب بھی ہوتےہیں۔ لیکن اتنےنہیں کہ مجھےدھندہ بند کرنا پڑے۔ وہ تم پر کوئی بھی جھوٹا الزام لگاکر حملہ کرسکتےہیں ۔اس لیےاس بارےمیں محتاط رہنا ۔“تب سےوہ بہت محتاط رہتا ہی۔اس نےمحسوس کیا تھا ۔ لوگوں کی آنکھوں میں اس کےلیےاچھےجذبات نہیں ہوتےہیں۔ وہ اسےناپسند یدہ نظروں سےہی دیکھتےہیں۔ اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہےاس سلسلےمیں اسی نےاپنےایک مسلمان دوست جاوید سےسوال کیا تھا....”یہ لوگ تمہیں پسند نہیں کرتےتم اس بات کا ماتم کررہےہو ۔“”ارےابھی تمہیں اس گاو
¿ں میں آئےدن کتنےہوئےہیں؟ مشکل سےایک ماہ !تب بھی تمہیں ناپسند کرتےہیں۔ ہم لوگ تو صدیوں سےاس گاو
¿ں میں رہ رہےہیں ۔اس کےباوجود وہ ہم لوگوں کو پسند نہیں کرتےہیں ۔اور چاہتےہیں کہ ہم یہاں پرکوئی کام دھندہ نہ کریں۔ یہ گاو
¿ں چھوڑ کر چلےجائیں۔ آئےدن کوئی نہ کوئی نیا فتنہ اٹھاتےرہتےہیں اور آجکل تو کچھ زیادہ ہی....“جاوید کی بات سن کر وہ بہت کچھ سوچنےپر مجبور ہوگیا ۔ جاوید کی پیدائش اسی گاو
¿ں میں ہوئی تھی ۔وہ یہاں پلا بڑھا تھا ۔اس گاو
¿ں میں اس نےتعلیم مکمل کی تھی پر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنےممبئی میں اس نےاپنےایک رشتہ دار کےپاس ممبئی گیا تھا۔ ممبئی میں اس نےکمپیوٹر کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی ۔اس کی قابلیت کےبنیاد پر اسےممبئی میں اچھےجاب کےآفرآئےلیکن اس نےوہاں نوکری کرنا مناسب نہیں سمجھا ۔اس کا ایک ہی مقصد تھا ۔ میں نےجو تعلیم حاصل کی ہے۔ میں اپنےعلم ،تعلیم ،روشنی سےاپنےگاو
¿ں والوں کو فیض یاب کروں گا۔ اور وہ گاو
¿ں واپس آگیا۔ اس نےکمپیوٹر کی ایک چھوٹی سی دوکان کھولی اوروہاں پر گاو
¿ں کےبچوں کو کمپیوٹر کی تعلیم دینےلگا۔ اس وقت گاو
¿ں میں کوئی بھی کمپیوٹر سےآشنا نہیں تھا۔ کمپیوٹر کا زمانہ تھا کمپیوٹر کی تعلیم کی اہمیت کا احساس ہر کسی کو تھا ۔اس لیےہر کوئی اس تعلیم کی طوف مائل ہونےلگا ۔اور جاوید کےپاس کمپیوٹر کی تعلیم حاصل کرنےوالےطلباءکی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہونےلگا ۔سویرےآٹھ بجےسےرات کے٢١ بجےتک بچےجاوید کےپاس کمپیوٹر سیکھنےکےلےآتے۔ ایک سال میں ہی جاوید کی چھوٹی سی کمپیوٹر سکھانےکی کلاس ایک بڑےسےکمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ میں تبدیل ہوگئی ۔گاو
¿ں کےوسط میں ایک شاندار نجی عمارت میں جاوید کا شروع کردہ اقصیٰ کمپیوٹر اس علاقےکا سب سےبڑا کمپیوٹر اسنٹی ٹیوٹ بن گیا۔جہاں بچوں کو کمپیوٹر کی جدید تعلیم دی جاتی تھی۔ کمپیوٹر فروخت اور درست کیےجاتےتھی۔ اورسائبر کیفےتھا۔ جو گاو
¿ں کےواحد سائبر کیفےتھا جس میں ہمیشہ بھیڑ لگی رہتی تھی۔ جاوید کےجذبےکی کسی نےبھی قدر نہیں کی بلکہ اسےبھی تجارتی نقطہ نظر سےدیکھ کر اس میں تجارتی رقائبوں کا عنصر تلاش کیا گیا۔ منافع بخش دھندہو ہےصرف یہ سوچ کر ایک دو اور کمپیوٹر کی تعلیم دینےوالی کلاسس شروع ہوگئی ۔یہ اور بات تھی کہ انھیں وہ کامیابی نہیں مل سکی ۔ لیکن اس طرح جاوید اور اقصیٰ کمپیوٹر کےتجارتی رقیب تو پیدا ہوگئےتھی۔ جاوید کی باتوں نےاسےبہت کچھ سوچنےپر مجبور کردیا تھا۔اسےلگا کہ اسےبھی ان تمام باتوں کا سامنا کرنا پڑےگا۔ اگر ایسا ہوا تو اس کےلیےیہ راہ اتنی آسان نہیں ہےجتنی وہ سوچ رہا ہی۔اس کےلیےشروع شروع میں کئی مسائل تھی۔ سب سےبڑا مسئلہ زبان کا تھا۔ اسےپنجابی آتی تھی ۔ہندی بول لیتا تھا۔ لیکن وہاں کےلوگ گجراتی کےعلاوہ کچھ بولتےاور سمجھتےہی نہیں تھی۔ اس کا چاچا اتنےعرصےتک وہاں رہنےکی وجہ سےگجراتی سیکھ گیا تھا اس لیےاس کا کام چل جاتا تھا۔ لیکن اسےرگھو یا راجو کا سہارا لینا پڑتا تھا۔ ویسےاسےپورا اعتماد تھا کہ وہ کچھ عرصےمیں کام چلاو
¿ گجراتی سیکھ جائےگا۔ لیکن زبان کی اجنبیت کا احساس اسےکچھ کہنےلگا۔ اسےلگا اس زبان کی اجنبیت کی وجہ سےوہ وہاں اچھےدوست نہیں بناپائےگا۔کیونکہ وہ روانی سےجذبات احساسات کا اظہار نہیں کرسکےگا۔ نہ سامنےوالےکےجذبات احساسات کو سمجھ سکےگا۔ دوست وہی بن سکتا ہےجس کےسامنےروانی سےاپنےاحساسات کا اظہار ممکن ہی۔ یا جس کےجس احساسات کو سمجھا جاسکا۔اس وجہ سےاتنےدنوں میں صرف جاوید ہی اس کا دوست بن سکا ۔لیکن جاوید کےپاس انتا وقت نہیں تھا کہ ئوہ اس کےپاس آکر بیٹھے۔اسےرات میں وقت ملتا تو وہ جاوید کےسائبر پہونچ جاتاتھا۔ لیکن وہاں بھی جاوید سےفرصت سےبات چیت نہیں ہو پاتی تھی۔ جاوید کمپیوٹرس کےپیچھےحیران ہوتا ۔اور وہ تماشائی بنا جاوید کو کمپیوٹروں سےالجھا دیکھاتا ۔جاوید نےایک دوبار اس سےکہا بھی تھا ”.... کمپیوٹر سیکھ جاو
¿ ،ایک بار انٹرنیٹ کی لت لگ گئی تو تم بھی میرےرنگ میں رنگ جاو
¿ گے۔“لیکن باوجود باربار کوشش کہ وہ ماو
¿س ہاتھوں میں پکڑنا سیکھ نہیں سکا تو اسکرین پر ابھرنےوالی انگریزی تحریروں کو کیا پڑھتا اور سمجھتا ۔ویسےبھی انگریزی اس کی کمزوری تھی۔ جاوید اس لیےاس کا دوست بنا کہ ان کےدرمیان زبان کی اجنبیت نہیں تھی۔ وہ روانی سےجاوید کےساتھ گفتگو کرسکتا تھا۔ اور جاوید اس کی پنجابی بھی سمجھ لیتا تھا ۔ اور اس کا ساتھ دینےکےلیے،یا مذاق اڑانےکےلیےپنجابی لہجےمیں گفتگو بھی کرتا تھا۔ وہ جاوید کی اس لیےقدر کرتا تھا کہ جاویداتنا مصروف رہتا تھا لیکن اس کےلیےوقت ضرور نکالتا تھا ۔جاوید سےاس کی پہچان اس کی اپنی دوکان پر ہوتی تھی۔ جاوید اپنی موٹر سائیکل کیلیےکوئی پرزہ خریدنےاس کی دوکان پر آیا تھا تو رگھو نےاسےبتایا کہ یہ پرانا گاہک ہےتو اس نےاس سےخود کو متعارف کرایا۔ ”چلو اچھا ہوا سردارجی ....آپ آگئے.... پورےگاو
¿ں میں ایک نوجوان سردار تو ہی۔ ورنا گاو
¿ں والےآپ کےبوڑھےچاچا کو دیکھ دیکھ کر سردار جی لوگوں کےبارےمیں غلط نظریات قائم کرنےلگےتھی۔ “اس کےبعد جاوید جب بھی اس کےدوکان کےسامنےسےگذرتا اسےہاتھ دکھاتا گذرتا تھا۔ اگر فرصت میں رہتا ہوتا تو رک کر خیر خیریت پوچھ لیتا ۔جاوید اس کےدل پر ایک گہرا نقش چھوڑ گیا تھا۔ اسےایسا محسوس ہوتا تھا جیسےاس کےگاو
¿ں میں کوئی یار جاوید کی شکل میں اس کےپاس آگیا ہے۔ اس کا ماننا تھا واہ گرو ہر کام آسان کرتا ہے۔سویرےجلدی اٹھنا اس کےلیےسب سےمشکل کام تھا۔ لیکن اس کام میں بھی آسانی پیدا ہوگئی تھی جب سےاس نےمدھو کو دیکھا۔ مدھو گاو
¿ں کی لڑکی تھی ۔شہر کالج پڑھتی تھی روزانہ سویرےچھ ،سات بجےکی بس سےشہر جاتی تھی۔ کالج سےکبھی ایک بجےواپس آتی تو کبھی ٤ بجےتو کبھی شام کو ۔شہر جانےوالی بس کا اسٹاپ اس کی دوکان کےسامنےتھا ۔ اکثر سویرےبس کےانتظار میں مدھو اس کی دوکان کےسامنےکھڑی ہوتی تھی۔ واپسی میں بھی اس کی دوکان کےسامنےہی آکر رکتی تھی اور بس سےاتر کر مدھو غیر ارادی طور پر ایک نظر اس کی دوکان کی طرف ڈالتی ،آگےبڑھ جاتی ۔مدھو نےاس کےذہن اور اس کی زندگی میں ہلچل مچادی تھی ۔ اب تک اس نےہزاروں لاکھوں خوبصورت سےخوبصورت لڑکیاں دیکھی تھیں کئی تو اس پر مرتی تھیں ۔پنجاب کےدیہاتوں کا بےباک حسن تو قصےکہانیوں میں آج بھی زندہ ہی۔ لیکن اب تک کوئی بھی ایسا چہرہ نہیں ملا جو اس کےدل و دماغ میں ہلچل مچادی۔ لیکن مدھو پرنظر پڑتےہی اس کےدل و دماغ ہی نہیں زندگی میں بھی ہلچل مچ گئی۔ اس نےکالج سےآتےہوئےمدھو کو کئی بار دیکھا تو پتہ لگایا کہ یہ کالج کب جاتی ہےتو اسےپتہ چلا جب وہ سویا ہوا ہوتا ہےتب وہ کالج جاتی ہی۔ سویرےچھ سات بجی۔ اور بس کےانتظارمیں بہت دیر تک ٹھیک اس کی دوکان کےسامنےبنےبس اسٹاپ پر کھڑی رہتی ہی۔ یہ سن کر اس کی بیتابی بڑھ گئی۔ کالج سےواپس آتی مدھو صرف چند منٹوں تک اس کی آنکھوں کےسامنےہوتی تھی تو اس پر ایک نشہ طاری ہوجاتا تھا جو گھنٹوں نہیں اترتا تھا۔ سویرےتو وہ مدھو کو گھنٹوں دیکھ سکتا ہے۔یہ سوچ کر اس نےطےکر لیا اب وہ اپنی عادت کےخلاف سویرےجلد جاگ جایا کرےگا۔ صبح جو ایک جادوبکھیرتی نمودار ہوتی ہی۔ ہر فرد کےلیےاس میں ایک الگ طرح کا جادو ہوتا ہی۔ اور وہ اس میں اپن مقصد کا جادو تلاش کرتا ہی۔ لیکن صبح کبھی بھی جمی کےلیےجادو جگاتی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ اب وہی صبح اس کےلیےایک جادو بکھیرتی نمودار ہوتی ہی۔ اس صبح میں اس کےلیےایک الگ طرح کا جادو ،نشہ ،کشش ہوتی ہی۔ مدھو کےدیدار کی کشش ....مدھو کےدیدار کا نشہ ....مدھو کےدیدار کا جادو....







Contact:-
M.Mubin
http://adabnama.tripod.com
Adab Nama
303-Classic Plaza,Teen Batti
BHIWANDI-421 302
Dist.Thane ( Maharashtra,India)
Email:-adabnama@yahoo.com
mmubin123@yahoo.com
Mobile:-09372436628
Phone:-(02522)256477












 
Copyright (c) 2010 Urdu Novel Allao by M.Mubin Part 1 and Powered by Blogger.